🌙 غزل نمبر 31
محبت کی داستاں ادھوری رہ گئی
وفا کی خوشبو بھی بے نوری رہ گئی
چراغِ خواب بجھ گئے اندھیروں میں
خوابوں کی دنیا بھی مغموری رہ گئی
یادوں کے موسم نے رُلایا دل کو
خوشی کی بارش بھی مجبوری رہ گئی
اندھیروں نے چھین لی روشنی کی کرن
سکون کی دھڑکن بھی معذوری رہ گئی
اب دل کے کتبے پہ لکھا ہے یہی
محبت کی تصویر ادھوری رہ گئی
🌙 غزل نمبر 32
غم کے طوفاں نے ڈبایا ہے مجھے
یادوں کی دھند نے رلایا ہے مجھے
چراغِ خواب بجھ گیا لمحوں میں
اندھیروں نے ہر پل ستایا ہے مجھے
وفا کی بارش بھی ترسا گئی آخر
محبت نے ہر بار جلایا ہے مجھے
یقین کی چھاؤں بھی چھین لی تقدیر نے
وقت نے ہر سانس دبایا ہے مجھے
اب دل کی بستی اجڑ گئی پوری
تنہائی نے قید بنایا ہے مجھے
🌙 غزل نمبر 33
چراغِ امید بجھ گیا اندھیروں میں
خواب بھی کھو گئے گہرے اندھیروں میں
محبت کی بارش بھی نہ آئی قریب
دل کے زخم جلتے رہے اندھیروں میں
یادوں نے چھین لیا ہر لمحہ سکون
سانسیں بھی ڈوب گئیں اندھیروں میں
وفا کی خوشبو بھی بکھر گئی ہوا میں
غم کی صدا گھومتی رہی اندھیروں میں
اب دل کا منظر ہے خاموشیوں کا نگر
روشنی بھی کھو گئی گہرے اندھیروں میں
🌙 غزل نمبر 34
تمہارے بعد سکوت نے گھیر لیا
محبت کا رنگ بھی وقت نے چیر لیا
چراغِ خواب کی کرن بجھ گئی لمحوں میں
اندھیروں نے ہر پل کا سکون پیر لیا
وفا کے وعدے بھی ٹوٹ گئے خاموشی سے
یقین کی بارش نے دل کو چیر لیا
یادوں کی کرب نے جلایا ہے ہر پل
غم کی ہوا نے وجود کو گیر لیا
اب بس خاموشی کا راج ہے دل میں
محبت کی خوشبو کو تقدیر نے چیر لیا
🌙 غزل نمبر 35
ادھوری کہانی کا بوجھ اٹھا رہا ہوں
غم کی زمیں پہ زخم بو رہا ہوں
چراغِ خواب بجھ گیا وقت کے ساتھ
یادوں کے دیپک جلتا بجھا رہا ہوں
وفا کی راہوں میں سفر ادھورا رہا
محبت کی مٹی میں تنہا سو رہا ہوں
اندھیروں نے چھین لی روشنی کی خوشبو
اب تنہائی کا زہر پی رہا ہوں
ہر سانس میں دل کی بربادی ہے لکھی
غم کے کتبے پہ نام ہو رہا ہوں
🌙 غزل نمبر 36
چراغِ خواب بکھر کے مٹ گیا آخر
وفا کا رنگ دل سے چھٹ گیا آخر
محبت کے وعدے بھی بکھر گئے راہوں میں
اندھیروں کا سفر طے ہو گیا آخر
یادوں کی گونج نے جلایا ہے ہر پل
سکون کا لمحہ بھی چھن گیا آخر
قسمت کے کھیل نے رُلایا ہے بہت
یقین کا سہارا بھی ٹوٹ گیا آخر
اب دل کی دھڑکن میں ہے صرف خاموشی
محبت کا قصہ بھی ختم ہوا آخر
🌙 غزل نمبر 37
خوابوں کی وادی میں روشنی نہیں رہی
محبت کی زمین میں خوشبو نہیں رہی
چراغِ امید بجھ گیا وقت کے ساتھ
اب دل کے نگر میں کوئی خوشی نہیں رہی
اندھیروں نے چھین لی سکون کی کرن
وفا کی راہوں میں زندگی نہیں رہی
یادوں کے بوجھ نے کچلا ہے دل کو
محبت کی بارش بھی قریبی نہیں رہی
اب بس زخموں کی تحریر بچی ہے یہاں
خوشبو کی کوئی لَے نصیبی نہیں رہی
🌙 غزل نمبر 38
یادوں کے صحرا میں جلتا رہا دل
غم کی ہوا میں پگھلتا رہا دل
چراغِ خواب بھی بجھا دیا تقدیر نے
وفا کی خوشبو میں سلگتا رہا دل
اندھیروں کے دیس میں زخموں نے پکارا
سکوت کی قید میں بکھرتا رہا دل
محبت کی راہ بھی اجڑ گئی آخر
یقین کی چادر میں لپٹتا رہا دل
اب ہر سانس میں ہے بوجھ تنہائی کا
خاموش لمحوں میں روتا رہا دل
🌙 غزل نمبر 39
چراغِ دل بجھ گیا ہوا کے ساتھ
محبت بھی مر گئی وفا کے ساتھ
یادوں نے رُلایا ہر اک لمحہ مجھے
غموں نے قید کیا دعا کے ساتھ
اندھیروں نے چھین لیا سکون دل کا
سفر بھی کٹ گیا بلا کے ساتھ
وفا کی داستاں بھی رہ نہ سکی باقی
خواب بھی مٹ گئے سزا کے ساتھ
اب بس خاموشی ہے دل کی گلیوں میں
اجڑ گیا دل بھی جفا کے ساتھ
🌙 غزل نمبر 40
محبت کا سفر بھی تھم گیا ہے یہاں
چراغِ خواب بھی بجھ گیا ہے یہاں
اندھیروں کی چھاؤں نے قید کر لیا
سکون کا لمحہ بھی کھو گیا ہے یہاں
یادوں کے بوجھ نے جلایا ہے دل کو
خوشی کا لمحہ بھی ڈھل گیا ہے یہاں
وفا کی بارش بھی نہ آئی قریب
غم کی صدا نے چھپا لیا ہے یہاں
اب دل کی کتاب میں تحریر ہے یہی
محبت کا رنگ بھی مٹ گیا ہے یہاں
🌙 غزل نمبر 41
چراغِ خواب بجھا ہے جدائی کی ہوا سے
محبت کی خوشبو چھنی ہے دعا سے
یقین کے طوفاں نے توڑ دیا ہر سہارا
سکون بھی چھن گیا ہے خدا سے
یادوں کے صحراؤں میں جلتا ہے دل
زخموں کی آگ ملی ہے وفا سے
اندھیروں کی قید نے برباد کیا
اب روشنی بھی دور ہے صدا سے
اب دل کی تحریر یہی کہتی ہے
محبت میں کچھ نہیں ملا وفا سے
🌙 غزل نمبر 42
اندھیروں نے قید کر لیا ہے خوابوں کو
غم کی ہوا نے جلا دیا ہے بابوں کو
چراغِ امید بھی نہ بچ سکا آخر
قسمت نے توڑ دیا ہے حسابوں کو
محبت کے وعدے بھی رُلانے لگے
یادوں نے چھین لیا ہے شبابوں کو
وفا کے راستے بھی کٹ گئے دھوکے سے
وقت نے ڈبو دیا ہے نصابوں کو
اب دل کی گلیاں خالی خالی ہیں
اندھیروں نے بھر دیا ہے جوابوں کو
🌙 غزل نمبر 43
محبت کی داستاں ٹوٹ گئی راہوں میں
چراغِ خواب بجھ گئے ہوا کے گناہوں میں
وفا کی زمین بھی اجڑ گئی بالآخر
یقین کی روشنی کھو گئی آہوں میں
یادوں نے زہر بھرا ہے لمحوں میں
دل جل کے خاک ہوا ہے راتوں میں
اندھیروں نے چھین لی ہے سکون کی کرن
اب سانس ڈوب رہی ہے باتوں میں
اب بس تحریر ہے بربادی کی یہاں
محبت کی موت ہوئی گواہوں میں
🌙 غزل نمبر 44
یادوں کے زہر نے جلایا ہے دل
اندھیروں کی دھوپ نے ستایا ہے دل
چراغِ خواب بجھ گیا وقت کے ساتھ
محبت کی خوشبو نے رُلایا ہے دل
وفا کے وعدے بھی ٹوٹ گئے لمحوں میں
قسمت کے کھیل نے دبایا ہے دل
اندھیری رات نے سکوت دیا ہر پل
یقین کے لفظ نے مٹایا ہے دل
اب بس زخموں کی تحریر رہ گئی
خموشی کے شہر نے دبایا ہے دل
🌙 غزل نمبر 45
چراغِ امید بھی بجھ گیا آہستہ
محبت کا رنگ بھی مٹ گیا آہستہ
یقین کی داستاں بھی ٹوٹ گئی آخر
وفا کا خواب بھی بکھر گیا آہستہ
اندھیروں کی راہوں میں سکون چھن گیا
سکوت کا زہر بھی پل گیا آہستہ
یادوں کی بارش نے جلایا ہے دل
خوابوں کا سلسلہ بھی رک گیا آہستہ
اب دل کی دھڑکن میں بس خاموشی ہے
محبت کا نام بھی ڈھل گیا آہستہ
🌙 غزل نمبر 46
یقین کا چراغ بھی ٹوٹ گیا تقدیر سے
محبت کا رنگ چھن گیا تصویر سے
اندھیروں نے چھین لی ہے روشنی کی لَے
سکون کی خوشبو بھی چھپ گئی تحریر سے
یادوں کے بوجھ نے دبایا ہے ہر پل
غم کی ہوا نے جلایا ہے تعبیر سے
وفا کے وعدے بھی بکھر گئے خاموشی میں
چراغِ خواب بجھ گیا ہے تقدیر سے
اب دل کی تحریر میں یہی لکھا ہے
محبت بھی ہار گئی ہے تقدیر سے
🌙 غزل نمبر 47
اندھیروں کے دیس میں جلتا ہے دل
یادوں کے کرب میں پگھلتا ہے دل
چراغِ خواب بھی بجھا دیا تقدیر نے
محبت کے زہر سے سلگتا ہے دل
وفا کی بارش بھی نہ آئی کبھی
تنہائی کے بوجھ سے دب جاتا ہے دل
قسمت کے کھیل نے لوٹ لیا سب کچھ
یقین کے وعدے میں بکھرتا ہے دل
اب بس سکوت کی صدا رہ گئی ہے
خاموش لمحوں میں اترتا ہے دل
🌙 غزل نمبر 48
چراغِ دل بجھ گیا ہوا کے ہاتھوں
محبت کا خواب چھن گیا وفا کے ہاتھوں
اندھیروں نے قید کیا سکون کی صدا کو
یادوں نے باندھ لیا دعا کے ہاتھوں
وفا کی خوشبو بھی مٹ گئی ہوا میں
وقت نے لوٹ لیا صبا کے ہاتھوں
خوابوں کی بستی بھی اجڑ گئی آخر
یقین بھی چھین لیا سزا کے ہاتھوں
اب دل کی گلیاں سنسان ہیں پوری
محبت ہار گئی جفا کے ہاتھوں
🌙 غزل نمبر 49
محبت کی کہانی بکھر گئی پل پل
چراغِ خواب بجھ گئے جل جل
یقین کی زمین بھی اجڑ گئی آخر
اندھیروں نے قید کیا جل جل
وفا کے وعدے بھی بکھر گئے راہوں میں
یادوں نے جلایا ہے دل دل
غم کی ہوا نے سکوت دیا لمحوں میں
خوابوں کی کرچیاں ہوئیں خل خل
اب بس تحریر ہے زخموں کی صدا
محبت کا رنگ بجھا ہر پل
🌙 غزل نمبر 50
چراغِ خواب بجھ گیا جدائی سے
محبت بھی ہار گئی تنہائی سے
اندھیروں نے چھین لی سکون کی کرن
وفا بھی ٹوٹ گئی رسوائی سے
یادوں نے جلایا ہے دل کا ہر پل
غم کی بارش ملی بے وفائی سے
قسمت کے کھیل نے برباد کیا آخر
یقین کا رنگ چھن گیا برائی سے
اب بس کتبہ ہے دل کی دیوار پہ
“محبت بھی ہار گئی جدائی سے”
Tags:
Sad Ghazal