🌙 غزل نمبر 1
یادوں کی بارش میں جلتی ہے روح راتوں کو
خوابوں کی بستی میں بکھرتی ہیں سوغاتوں کو
تنہائی کے صحرا میں صدا کوئی نہیں آتی
بکھری ہوئی سانسیں گنتی ہیں دن اور راتوں کو
غم کی دھڑکن میں بجھتے ہیں چراغِ آرزو
آنکھوں نے سونپ دیا ہے دل کو یہ کرب کی باتوں کو
خاموش لبوں پر الجھی ہوئی فریادیں ہیں
تقدیر نے بانٹ دیا ہے زخموں کی سوغاتوں کو
سناٹے میں گم ہے دل کا ہر اک ساز ابھی
آنکھوں نے قید کر لیا ہے اشکوں کی برساتوں کو
🌙 غزل نمبر 2
وہ پلکوں پہ ٹھہرے ہوئے خواب کہاں جائیں گے
ہوا کے ساتھ بکھرے گلاب کہاں جائیں گے
جدائی کا سفر بھی عجب سزا دے گیا
جو دل میں تھے وہی بے حساب کہاں جائیں گے
خموشی کے نگر میں چراغ جلتے نہیں
یہ زخموں کے لٹے انقلاب کہاں جائیں گے
یقین ٹوٹنے پر بھی دل دھڑکتا رہا
محبت کے سبھی انتساب کہاں جائیں گے
ابھی تو دل کے کٹورے میں درد باقی ہے
یہ رنج و غم کے خراب کہاں جائیں گے
🌙 غزل نمبر 3
اندھیروں میں ڈھونڈتا ہوں روشنی کے خواب
مگر بکھر جاتے ہیں پلکوں سے سارے خواب
تنہائیوں نے اوڑھ لیا ہے میرا وجود
اب میرے دل میں نہیں اُترتے کوئی جواب
محبتوں کے چراغ بجھ گئے وقت کے ساتھ
اب دل سنبھال نہ پایا کوئی بھی انقلاب
کسی کے جانے کا دکھ دل کو جلا گیا
اب یادوں میں ڈھونڈتا ہوں کھوئے ہوئے نصاب
ہزار بار کہا، دل کو صبر آ بھی جائے
مگر یہ دل نہیں مانتا، کرتا ہے حساب
🌙 غزل نمبر 4
آنسوؤں سے لکھا ہے تقدیر کا ہر لفظ
غم کے دریا میں بہا ہے ضمیر کا ہر لفظ
خاموشی میں چھپا ہے فسانہ ٹوٹنے کا
یادوں نے بکھیر دیا ہے شعور کا ہر لفظ
بے بسی کی تصویر بنی ہے آنکھوں کی لالی
وقت نے چھین لیا ہے تقاضا کا ہر لفظ
جدائی کی ہوا نے بجھا دیا امید کا دیا
اب دل کو ڈس گیا ہے تسلی کا ہر لفظ
محبت کے کتبے پہ لکھے تھے وعدے کبھی
اب بکھر کر رہ گیا ہے دلگیر کا ہر لفظ
🌙 غزل نمبر 5
نہ جانے خواب کی بستی کہاں کھو گئی
یقین کی روشنی بھی ہوا میں رو گئی
ہر اک خیال ادھورا، ہر اک سفر ادھورا
محبت کی کہانی بھی آنسوؤں میں دھو گئی
خموش لمحے بتاتے ہیں درد کی زبانی
وفا کی راہ میں قسمت بھی راستہ موڑ گئی
کسی کے جانے کا غم دل کو یوں جلا گیا
کہ خوشبو یاد کی بھی مرے دل سے کھو گئی
ابھی بھی آنکھیں تر ہیں اُس کی یاد میں
جو پلکوں پر رُکی تھی مگر پھر بہہ گئی
🌙 غزل نمبر 6
یادوں کے جنگل میں بھٹکتا رہا ہوں میں
دکھ کی زمیں پر قدم رکھتا رہا ہوں میں
تنہائی کے صحرا نے قید کیا ہے مجھے
خاموش لمحوں سے لڑتا رہا ہوں میں
محبت کی بارش بھی نہ بجھا سکی دل کو
آنسو کی چھاؤں میں جلتا رہا ہوں میں
غم کی تپش نے بنا دیا ہے خاکستر
ہر روز اپنی ہی آگ میں جلتا رہا ہوں میں
وہ وعدے، وہ قسمیں، سب رہ گئے خوابوں میں
اب خوابِ ٹوٹے کو سہلاتا رہا ہوں میں
🌙 غزل نمبر 7
جدائی کی ہوا نے بجھا دی امیدیں سب
اب دل کے زخموں میں بھٹکتی ہیں عیدیں سب
محبتوں کا جہاں ٹوٹ کے بکھر گیا
اندھیروں میں کھو گئیں روشنی کی دیدیں سب
خوابوں کا سہارا بھی اب نہیں باقی
یادوں نے چھین لیں خوشی کی نویدیں سب
وہ وقت کہاں جو دل کو سہارا دیتا تھا
اب روتی ہیں چپکے چپکے امیدیں سب
زمانہ بھی تماشہ دیکھتا رہا صدیوں
مگر دل کو نہ ملی محبت کی عیدیں سب
🌙 غزل نمبر 8
غم کی رہگزر پہ صدا سنائی نہیں دیتی
محبت کی ہوا بھی وفا دکھائی نہیں دیتی
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں سنبھالتا ہوں
مگر دل کی آنکھ کو روشنی دکھائی نہیں دیتی
بکھری ہوئی شامیں اور اجڑی ہوئی راتیں
اب صبح کی کرن بھی خوشبو لائی نہیں دیتی
یادوں کے چراغ جلتے ہیں تنہائی میں
مگر سکون کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی
اندھیروں کے نگر میں دل الجھتا رہا
مگر امید کی کرن کبھی چھوائی نہیں دیتی
🌙 غزل نمبر 9
ٹوٹے ہوئے دل کو سہارا نہیں ملا
آنسوؤں کا دریا بھی کنارا نہیں ملا
محبت کی راہوں میں جلا دیا گیا
غم کی محفلوں میں بھی گزارا نہیں ملا
یقین کا دیا بھی بجھا دیا تقدیر نے
خوابوں کے نگر میں ستارا نہیں ملا
تمہارے بعد دل نے جینا سیکھا مگر
یادوں کے سوا کچھ بھی دوبارہ نہیں ملا
ہر درد کو دل نے سینے میں چھپا لیا
مگر اس غم کا اب کوئی چارہ نہیں ملا
🌙 غزل نمبر 10
خوابوں کی کتاب میں بس درد لکھا گیا
یادوں کی روشنی بھی اندھیرے میں چھپا گیا
چپ چاپ سا منظر ہے، تنہائی کی صدا ہے
ہر زخم کا قصہ دل کی دھڑکن سنا گیا
محبت کا سفر بھی اک سزا بن گیا آخر
جو ہاتھ تھاما تھا وہ بیچ راہ چھوڑ گیا
ٹوٹے ہوئے پلکوں پہ آنسو اترتے ہیں
ہر بوند میری تقدیر کا حال بتا گیا
اب دل کی وادیوں میں اجالا نہیں باقی
غم کی ہوا ہر خوشی کا دیا بجھا گیا
🌙 غزل نمبر 11
آنسوؤں کی زبان پہ کہانی لکھی گئی
غم کی کتاب میں بھی نشانی لکھی گئی
یادوں نے جلایا ہے چراغ جدائی کا
ہر ایک سطر میں دل کی ویرانی لکھی گئی
محبت کے سفر کا مقدر رہا اندھیرا
وقت کی مٹی پہ ادھوری جوانی لکھی گئی
تنہائی کے صحرا میں بھٹکتا رہا دل
غم کی صدا پر شکستہ کہانی لکھی گئی
اب دل کے کتبے پہ لکھا ہے ایک جملہ
“تقدیر نے برباد کی، زبانی لکھی گئی”
🌙 غزل نمبر 12
تمہارے بعد یہ دل سنبھل نہیں پایا
یقین کے چراغ کو جلایا نہیں پایا
ادھورے خوابوں کی سدا ستاتی رہی
غم کے زہر کو کبھی پیا نہیں پایا
محبتوں کا سفر بھی عذاب سا نکلا
وفا کے میٹھے پھل کو کھایا نہیں پایا
اندھیروں کی قید نے سکون چھین لیا
سکون کا لمحہ بھی ملایا نہیں پایا
اب ٹوٹے ہوئے دل نے مان لی ہار ہے
غم کے کتبے پہ نام چھپایا نہیں پایا
🌙 غزل نمبر 13
یادوں کی بارش نے جلایا دل کا مکاں
اشکوں نے ڈبویا ہر اک امید کا جہاں
خاموش فضاؤں میں صدا کھو گئی ہے
اب دل کے کمرے میں فقط تنہائی کا دھواں
محبت کے قصے بکھر گئے خاک میں
ٹوٹا ہوا دل ہے، اجڑا ہوا سماں
ہر ایک لمحہ ہے زخموں کی زبانی
اندھیروں میں لپٹا ہے ہر خواب رواں
اب دل کی گلیوں میں سکوت کا پہرہ ہے
چراغ بجھانے پہ مجبور ہوا ہے یہاں
🌙 غزل نمبر 14
غم کے صحراؤں میں اکیلا بھٹکتا ہوں
یادوں کے کرب کو دل میں چھپاتا ہوں
چراغِ امید بھی بجھ گیا اندھیروں میں
اب جلتی ہوئی سانسوں کو سہلاتا ہوں
محبت کے دریا نے ڈبو دیا ہے مجھے
ہر روز زخموں کے سمندر میں جاتا ہوں
اندھیری راتوں نے چھین لی ہے خوشبو
اب تنہائی کی خوشبو میں جلتا ہوں
قسمت کے کھیل نے چھین لی مسکراہٹ
اب روتے لمحوں کو ہی گنگناتا ہوں
🌙 غزل نمبر 15
ادھوری کہانی کا درد سنبھالا نہیں گیا
غم کی کالی رات کا چراغ جلا نہ گیا
تمہارے جانے کے بعد اجڑ گیا منظر
اب دل کی روشنی میں کوئی دیا نہ گیا
خوابوں کی کرچیاں دل کو چبھتی رہیں
یادوں کے زہر کا کوئی پیالہ نہ گیا
محبت کی راہوں میں ہم ہار گئے آخر
وفا کی مٹی پہ کوئی حوالہ نہ گیا
اب تنہائیوں کی سڑک پہ چلتے ہوئے
دل کی صدا کو کوئی سنبھالا نہ گیا
🌙 غزل نمبر 16
اندھیروں کی بانہوں میں دل قید ہوا
وقت کے طوفاں میں خواب ریزہ ریزہ ہوا
محبت کی زمین پر بارش نہ برسی
غم کے بادلوں میں ہی سب کچھ فنا ہوا
چراغ امید کا جل نہ سکا ایک پل
ہر لمحہ تقدیر کے ہاتھوں بجھا ہوا
یادوں کے بوجھ نے سانسیں چھین لیں
ہر زخم دل پہ گہرا لکھا ہوا
اب دل کی کتاب میں کہانی نہیں کوئی
ہر صفحہ فقط رونے سے سجا ہوا
🌙 غزل نمبر 17
تمہارے بغیر یہ دل اجڑ سا گیا
محبت کا رنگ بھی مٹ سا گیا
وفا کی کرن بھی بجھ گئی اندھیروں میں
یقین کا چراغ بھی ٹوٹ سا گیا
خوابوں کے نگر میں خموشی چھا گئی
یادوں کا قافلہ بھی رک سا گیا
اندھیری رات نے چھین لی چمک ساری
خوشبو کا لمحہ بھی کھو سا گیا
اب تنہائی کی فضا میں چلتا ہوں
دل کا سکون بھی تھم سا گیا
🌙 غزل نمبر 18
محبت کی راہوں میں دل ہارا گیا
ہر خواب کا انجام بھی تاراج ہوا
یادوں کے چراغ نے جلایا ہے دل
غم کی ہوا میں ہر سکون دفن ہوا
اندھیروں کے دیس میں خواب ٹوٹ گئے
وفا کے چرچوں میں بھی فریب بس ہوا
چپ چاپ نظروں نے کہا ہر بات
مگر لبوں پہ صبر کا پردہ ہی رہا
اب درد کے صحرا میں چلتا ہوں اکیلا
محبت کا رنگ بھی ریت میں دفن ہوا
🌙 غزل نمبر 19
آنسوؤں نے کہا کہ سکون نہیں رہا
دل کے نگر میں کوئی جنون نہیں رہا
محبت کی روشنی بھی بجھا دی گئی
اب خوابوں میں کوئی سکون نہیں رہا
وفا کی تصویریں بکھر گئیں خاک میں
ہر پل میں کوئی رنگ و خُون نہیں رہا
اندھیری رات نے دل کو قید کر لیا
چراغِ امید کا اب جنون نہیں رہا
اب دل کی دیواروں پہ لکھا ہے فقط
“محبت کا سفر مگر سکون نہیں رہا”
🌙 غزل نمبر 20
جدائی کے زخموں نے جلایا ہے دل
غم کی ہوا نے مٹایا ہے دل
یقین کے چراغ بھی بجھائے گئے
امید کے دریا میں ڈوبایا ہے دل
محبت کی بارش بھی نہ آئی قریب
تنہائی کے صحرا میں جلایا ہے دل
ہر خواب بکھر کے خاک ہوا لمحوں میں
وقت کے دھوکے نے رلایا ہے دل
اب بس غم کی تحریر ہے باقی یہاں
وفا کی ہوا نے رلایا ہے دل
🌙 غزل نمبر 21
وقت کے ہاتھوں نے اجاڑ دیا سکون
محبت کے چراغ کو بجھا دیا سکون
یادوں کے زہر نے پلکیں جلادیں ہیں
آنکھوں کے دریا نے بہا دیا سکون
اندھیروں نے چھین لی روشنی کی کرن
تقدیر کے کھیل نے گنوا دیا سکون
محبت کی راہ میں شکست ہی لکھی گئی
قسمت کے صفحے نے مٹا دیا سکون
اب دل کی گلی میں خموشی کا راج ہے
زخموں نے ہر لمحہ چھپا دیا سکون
🌙 غزل نمبر 22
تمہارے بعد خالی ہوا ہے دل کا نگر
وفا کے رنگ سے محروم ہوا ہے دل کا نگر
چراغِ خواب بجھ گیا اندھیروں میں
یقین کی بارش سے ترسا ہے دل کا نگر
جدائی کے طوفاں نے سب کچھ چھین لیا
یادوں کے بوجھ سے دبا ہے دل کا نگر
محبت کی خوشبو اب کہیں باقی نہیں
ادھورے خوابوں میں گھرا ہے دل کا نگر
اب بس خاموشی ہے رہتی ہر سمت
غموں کے بوجھ میں بسا ہے دل کا نگر
🌙 غزل نمبر 23
یقین ٹوٹنے کا دکھ سہہ نہ سکا دل
محبت کے بعد کبھی کہہ نہ سکا دل
چراغ بجھے تو اندھیروں نے قید کر لیا
اب خوابوں کی راہ پہ رہ نہ سکا دل
یادوں کی دھوپ میں جلتا رہا لمحوں تک
مگر سکون کا پانی پی نہ سکا دل
قسمت کے کھیل نے توڑ دیا ہر پل
وفا کے وعدے بھی نبھا نہ سکا دل
اب زخموں کی دیواریں اونچی ہیں یہاں
محبت کے بعد کبھی سنبھل نہ سکا دل
🌙 غزل نمبر 24
غموں کی زمین پہ اُگے زخم ہر طرف
یادوں کی بارش میں بہے زخم ہر طرف
چراغِ خواب بجھ گئے اندھیروں میں
اندھیروں کے دیس میں جلے زخم ہر طرف
محبت کی کہانی ادھوری رہ گئی
وفا کی کتاب میں لکھے زخم ہر طرف
یقین کا آسمان بھی ٹوٹ گیا آخر
ادھورے خوابوں نے دیے زخم ہر طرف
اب دل کے کتبے پہ تحریر ہے یہی
خموشی کے جنگل میں کھلے زخم ہر طرف
🌙 غزل نمبر 25
اندھیری رات نے سکوت چھپا دیا
محبت کے خواب کو بھی جلا دیا
یادوں کی بارش نے دل کو ڈبو دیا
غم کے چراغ نے ہر پل رلا دیا
خوابوں کی کرچیاں لہو میں گھل گئیں
تقدیر کے کھیل نے سب کچھ چھپا دیا
تمہارے بغیر کوئی راستہ نہیں ملا
تنہائی نے دل کو بھی قید کر دیا
اب دل کی زمین پہ خاموشی کا راج ہے
یقین کے چراغ کو ہوا نے بجھا دیا
🌙 غزل نمبر 26
یادوں کی دھند نے سب کچھ چھپا لیا
محبت کے نقش کو بھی مٹا دیا
اندھیروں کی بانہوں نے قید کر لیا
چراغِ امید کو بھی بجھا دیا
خوابوں کی بستی میں سکون نہ ملا
ہر لمحہ درد نے دل کو جلا دیا
تمہارے بغیر یہ دل خالی خالی ہے
خموشی نے ہر پل کو رُلا دیا
اب درد کی دیواریں اونچی ہو گئیں
تقدیر نے خوشی کا رنگ چھپا دیا
🌙 غزل نمبر 27
غم کی بارش نے جلایا ہے ہر پل
یادوں نے قید کیا ہے دل کا ہر پل
چراغِ امید بجھ گیا اندھیروں میں
محبت کے سفر نے جلایا ہے ہر پل
یقین کی کرن بھی نہ ٹک سکی دل میں
اندھیروں نے چھین لیا ہے دل کا ہر پل
تمہارے بعد خوشی کا گزر نہ ہوا
غموں نے زخم دیا ہے دل کا ہر پل
اب دل کی دھڑکن میں سناٹا بسا ہے
تنہائی نے گھیر لیا ہے دل کا ہر پل
🌙 غزل نمبر 28
یادوں کے زہر نے جلایا ہے دل
اندھیروں کے طوفاں نے ڈبایا ہے دل
چراغِ خواب بھی اب نہیں جلا باقی
محبت کی راہوں نے ستایا ہے دل
قسمت کے کھیل نے سب چھین لیا
وفا کے وعدے نے بھی رلایا ہے دل
تنہائی کے دیس میں اب قید ہوا
خاموش لمحوں نے دبایا ہے دل
اب بس ادھورے خواب رہ گئے ہیں یہاں
اندھیروں نے زخم بنایا ہے دل
🌙 غزل نمبر 29
محبت کی کتاب ادھوری رہ گئی
یقین کی کرن بھی چھوری رہ گئی
چراغِ خواب بجھ گیا وقت کے ساتھ
وفا کی داستاں بھی ٹوٹی رہ گئی
یادوں کی چادر نے چھپا دیا غم
سکون کی سانس بھی روکی رہ گئی
اندھیروں نے بچھا دیا ہے جال یہاں
خوابوں کی روشنی بھی روکی رہ گئی
اب دل کے کتبے پہ تحریر ہے یہی
محبت کی بارش بھی سوکی رہ گئی
🌙 غزل نمبر 30
غم کی وادی میں قید ہے دل تنہا
اندھیروں کے دیس میں بچھا ہے دل تنہا
یقین کی چھاؤں بھی اب نہیں بچی
وفا کے خواب نے ستایا ہے دل تنہا
چراغِ امید بجھ گیا لمحوں میں
یادوں کے کرب نے جلایا ہے دل تنہا
محبت کی بارش بھی نہ آئی قریب
اندھیروں کی دھوپ نے جلایا ہے دل تنہا
اب بس خموشی ہے دل کی ہر گلی میں
قسمت کے کھیل نے رلایا ہے دل تنہا
Tags:
Sad Ghazal