Enjoy the beauty of Urdu Ghazals and Shayari. Read romantic, sad, and love poetry by famous poets. Discover emotional verses daily!
اردو غزلوں اور شایری کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں۔ مشہور شاعروں کی رومانوی، اداس اور محبت بھری شاعری پڑھیں۔ روزانہ جذباتی آیات دریافت کریں
بُجھے بُجھے سے عجیب دن ہیں
خواب ہے نہ خیال کوئی
نہ منظروں میں کوئی کشش ہے
نہ موسموں میں جمال کوئی
ہماری برسوں کی چاہتوں میں
اتر رہا ہے زوال کوئی
جو ہنسنا چاہیں تو اشک نکلیں
جو رونا چاہیں تو ہنستے جائیں
ہمارے جذبات گروی رکھ کے
بنا رہا ہے مثال کوئی
----------
عمر اعوان
ترکِ تعلق بھی کوئی حل نہیں
یہ راستہ بھی لیکن دشوار ہے
نہیں طلب دل میں کوئی مرے
وفا کا صِلہ مانگنا ہی بیوپار ہے
کہا کچھ نہیں پر کِیا سب بیان
کوئی عجب قِسم کا ہی فنکار ہے
گِلے شکوے تو ہیں اس سے مگر
جو بھی ہو، عادمی وہ جی دار ہے
ترس آتا ہے خود کو حال پر اب
توقع کسی سے کرنا ہی بے کار ہے
مداوا رونے سے کچھ نہ ہوگا عمیر
اُلٹا کہیں گے سب، یہ ہی ریاکار ہے
----------
نصیر ترابی
----
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی۔
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی۔
عداوتیں تھیں تغافل تھا رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی۔
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
----------
احمر حسن
----
سبز پتوں کے سب رنگ چرا لانا
کب سے بیٹھا ہوں زرد پتوں کی درمیان
وہ حسین مسکراہٹیں اپنے سنگ لانا
میرے غم کی خزا ن کا ہر ایک پتا
سب چن لینا جب بھی میرے پاس آنا
غم کی ا سیری میں دیکھا نہیں آسمان میں نے
اپنے آنگن کا نیا آسمان ساتھ لانا
اب تو آ جاؤ کے اس عمر کا اختتام ہوا
تمہارے ساتھ گزا رے لمحے کچھ ساتھ لانا
----------
خاور زیدی
----
کرب کے شہر میں رہ کر نہیں دیکھا تو نے
کیا گزرتی رہی ہم پر، نہیں دیکھا تو نے
کانچ کا جسم لئے شہر میں پھرنے والے
دستِ حالات میں پتھر نہیں دیکھا تو نے
اے مجھے صبر کے آداب سکھانے والے
جب وہ بچھڑا تھا، وہ منظر نہیں دیکھا تو نے
بے کراں کیوں نہ لگیں تجھ کو یہ جوہر تیرے
بات یہ ھے کہ سمندر نہیں دیکھا تو نے
جانے والوں کو صدائیں نہیں دیتا میں بھی
تو بھی مجھ سا ھے کہ مُڑ کر نہیں دیکھا تو نے
تو نے دیکھا ھے مقدر کا ستارہ خاؔور
پر ستارے کا مقدر نہیں دیکھا تو نے
----------
محسن نقوی
----
میں دل پہ جبر کروں گا ، تجهے بهلا دوں گا
مروں گا خود بهی تجهے بهی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی میرے گهر کا ہی کیوں مقدر هو؟
میں تیرے شہر کے سارے دیے بجها دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں !!
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے!
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری هے شام درد اکثر
کہ درد حد سے بڑهے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسمان کی صورت هے، گر پڑے گا کبهی
زمیں هوں میں بهی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑها رہی ہیں میرے دکھ ، نشانیاں تیری
میں تیرے خط ، تیری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے میرا دل اداس هے محسن
اس آئینے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
----------
کومل جوئیہ
----
مضمون _ محبت کے شمارے میں پڑھا ہے
اک ورد _ مسلسل جو خسارے میں پڑھا ہے
🌹کنکر سے ابابیل گرا دیتے ہیں ہاتھی............
میں نے یہ ابھی تیسویں پارے میں پڑھا ہے🌹
یہ رسمی تعارف بھی ضروری تھا مگر دوست
پہلے بھی کہیں آپ کے بارے میں پڑھا ہے
🌹حیرت ہے کہ ہم چار برس مل نہیں پائے
دونوں نے اگر ایک ادارے میں پڑھا ہے🌹
آواز اٹھانے سے بھی سنتا نہیں کوئی
میں نے یہ سبق آج اشارے میں پڑھا ہے
دن پھر سے گذرنا نہیں اچھا ترا کومل
اخبار کے اک برج ستارے میں پڑھا ہے
----------
ہم ہیں جُز کُل کا مگر کُل نہ مکمل دیکھا
ہم نے دیکھا ہے جسے بھی اُسے بیکل دیکھا
وہ میرے پاس جو ٹہرے تو ہر اِک پل ٹہرا
ہم نے گُزرے ہوۓ پل کو بھی اُسی پل دیکھا
وہ عدم ہے کہ ہے موجود کسی پل میں کہیں
ہم نے ہر خواب میں بس اُس کو مسلسل دیکھا
کیا کریں دل کی طلب کا نہیں مانے کچھ بھی
بہت سمجھاتے ہیں لیکن نہ کوئی حل دیکھا
نہ سمجھ پاۓ ہیں اس بار جو گُزری ہم پہ
ہم نے خود کو نہ کبھی خود سے یوں غافل دیکھا
جو کبھی مجھ میں چمکتا تھا مگر اب کے رضا
ہم نے اُس آنکھ کے تارے کو بھی اوجھل دیکھا
----------
سید نصیر الدین نصیرؔؒ
----
سینکڑوں بے قرار پھرتے ہیں
طالبِ وصلِ یار پھرتے ہیں
ان کے مُشتاق اُن کے دیوانے
ہر طرف بے شُمار پھرتے ہیں
دھُوم بھی ہے دُہائی بھی اُن کی
کرکے سولہ سِنگھار پھرتے ہیں
پھول کیا سر اُٹھا کے بات کریں
باغ میں گُل عذار پھرتے ہیں
نام سُن کر مِرا وہ کہنے لگے
ایسے ویسے ہزار پھرتے ہیں
مُجھ کو ہو خاک اِعتِبار اُن پر
قول سے بار بار پھرتے ہیں
چاند سُورج ہیں اُن کے وارفتہ
رات دِن بے قرار پھرتے ہیں
اُن کے کوچے میں ایک آدھ نہیں
پاسباں تین چار پھرتے ہیں
جلوہء یار کی تمنّا میں
لوگ دیوانہ وار پھرتے ہیں
اُن کی مَحفِل سے لَوٹنے والے
لُوٹ کر ہر بہار پھرتے ہیں
یہ ہے توہینِ مےکدہ ساقی
تشنہ لب میگُسار پھرتے ہیں
اے نصیؔر اُن کی چاہ میں لاکھوں
کھو کر صبر و قرار پھرتے ہیں
----------
علامہ اقبال
----
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
----------
مرزا غالب
----
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
----------
Tags:
Urdu Poetry

