Discover the world of Urdu and English poetry. Read romantic shayari, sad poetry, love quotes, ghazals, and verses from famous poets. Explore emotional and heart-touching poetry daily to express your feelings in words.
اردو اور انگریزی شاعری کی دنیا دریافت کریں۔ رومانوی شایری، اداس شاعری، محبت کے حوالے، غزلیں اور مشہور شاعروں
کی آیات پڑھیں۔ اپنے جذبات کو الفاظ میں بیان کرنے کے لیے روزانہ جذباتی اور دل کو چھو لینے والی شاعری کا مطالعہ کریں۔
تیرا حُسْن ہو میرا عشق ہو
پھر حُسْن وعشق کی بات ہو
کبھی میں ملوں ، کبھی تو ملے
کبھی ہم ملیں ملاقات ہو
کبھی تو ہو چُپ ، کبھی میں چُپ
کبھی دونوں ہم چُپ چاپ ہوں
کبھی گفتگو ، کبھی تزکرے
کوئی ذکر ہو کوئی بات ہو
کبھی ہجر ہو تو دن کو ہو
کبھی وصل ہو تو وہ رات ہو
کبھی الفتیں ، کبھی نفرتیں
کبھی جیت ہو ، کبھی مات ہو
کبھی پھول ہو ، کبھی دھول ہو
کبھی یاد ہو ، کبھی بھول ہو
رہیں مسکوراتی پیار میں
کھلیں پھول بن کے بہار میں
نا زمیں کوئی ، نا فلک کوئی
نا وجود ہو ، نا ہی ذات ہو
صرف
تیرا حُسْن ہو میرا عشق ہو
تیری ذات میں میری ذات ہو
----------
غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہما سحرش
----
پہلے اک خواب کی دنیا میں اتارا مجھ کو
پھر کہیں دشت سے صحرا سے گزارا مجھ کو
کتنی تکلیفیں کئی غم کئی صدمے جھیلے
تو نے آواز نہیں دی نہ پکارا مجھ کو
میں اندھیرا تھی مجھے روشنی کی آس رہی
تیری آنکھوں کے سوا کون ستارہ مجھ کو
تیری آشفتگی میں کھو دیا سب حسن و جمال
تو نے پھر بھی نہ مرے یار سنوارا مجھ کو
ایک طوفاں تھا طلاطم تھا مگر میں تنہا
موجِ دریا میں نہ مل پایا کنارا مجھ کو
----------
پیر نصیر الدین
----
سرِ مَیخانہ کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
ھمیں پِینے پِلانـے کا مزا اب تک نہیں آیا
کِیّا وَعدہ، مگــر وہ بـےوفا اب تک نہیں آیا
خُدا مَعلوم کب تک آئے گا، اب تک نہیں آیا
شَباب آیا، حِجاب آیا، ادائیں آ گئیں اُن کو
نہیں آیا تو اندازِ وَفا اب تک نہیں آیا
نِگاھیں اُن کی اُنھیں، گُھوم پِھر کر غَیر تک پُہنچیں
مری جانب کــــــوئی تیـرِ قَضا اب تک نہیں آیا
تمھِیں اے ھم نَشینو ! نامہ بر کی کُچھ خَبر لاؤ
ذرا پِھر دیکھ لو یـے کیا کہا، اب تک نہیں آیا
ھزاروں کو ھے دعوٰی ناخُدائی کا، مگر ھم کو
نظر کوئی بھی ساحِل آشنا اب تک نہیں آیا
مرے نزدیک تو عُذرِ خَطا انکارِ رحمت ھے
خطا کاروں کو اندازِ خطا، اب تک نہیں آیا
پَلٹ کر آ نہیں سکتا عَدم کی راہ سے کوئی
یـے دُنیا چھوڑ کر جو بھی گیا، اب تک نہیں آیا
مرے غَـم خانۂ ھَستی کی شب تاریک ھے کِتنی
کوئی جُگنو، کوئی روشَن دِیا، اب تک نہیں آیا
یـے اک تُم ھو، کہ اک مُدَّت ســے ھم کو بُھولے بیٹھے ھو
یـے اک ھم ھیں، کہ ھم کـو بُھولنا اب تک نہیں آیا
نصیرٓ اُس نے دمِ رُخصت نہ کیا کیا کھائی تھیں قَسمیں
مگــــر دیکھو ذرا ! وہ بـےوفا اب تک نہیں آیا
----------
در کائینات جو وا کرے اسی اگہی کی تلاش ہے مجھے روشنی کی تلاش تھی مجھے روشنی کی تلاش ہے غم زندگی کے فشار میں اسی بے حسی کے حصار میں مجھے زندگی کی تلاش ہے یہ جو سرسری سی نشاط ہے یہ تو چند لمحوں کی بات ہے میری روح تک جو اتر سکے مجھے اس اس خوشی کی تلاش ہے یہ جو ساختہ سے ہیں قہقے میرے دل کو لگتے ہیں بوجھ سے وہ جو اپنے اپ میں مست ہو مجھے اس ہنسی کی تلاش ہے یہ جو میل جول کی بات ہے یہ جو مجلسی سی حیات ہے مجھے اس سے کوی غرض نہیں
مجھے دوستی کی تلاش ہے
----------
اشرف وسیم
----
رئیسِ شہر کو بھیجے گلاب تتلی نے
کیا نہ بند در احتساب تتلی نے
ثبوت عشق کسی منچلے نے مانگا تھا
پروں پہ چھاپ کے بھیجا جواب تتلی نے
فضائے حبس میں جینے کا معجزہ ہے یہی
سلاخ گرم پہ ڈالی شراب تتلی نے
غنیم حسن ہوا ہے محبتوں کا اسیر
قفس کے خوف سے اوڑھا نقاب تتلی نے
خزاں کے ہاتھ رگ جاں گلاب کی کاٹیں
سرورِ لمس کے دیکھے تھے خواب تتلی نے
ہوئے ہیں حسن کے دشمن جو خار زار اشرف
کیا ہے پھول کا خانہ خراب تتلی نے
----------
فریحہ نقوی
----
ہم ایک شہر میں جب سانس لے رہے ہوں گے
ہمارے بیچ زمانوں کے فاصلے ہوں گے
وہ چاہتا تو یہ حالات ٹھیک ہو جاتے
بچھڑنے والے سبھی ایسا سوچتے ہوں گے
کہا بھی تھا کہ زیادہ قریب مت آؤ
بتایا تھا کہ تمہیں مجھ سے مسئلے ہوں گے
وہی صفات و خصائل ہیں اور وہی لہجے
یہ لوگ پہلے کبھی بھیڑیے رہے ہوں گے
----------
جگر مراد آبادی
----
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
یہ جناب شیخ کا فلسفہ جو سمجھ میں میری نہ آ سکا
جو وہاں پیؤ تو حلال ہے جو یہاں پیؤ تو حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں کم نظر کا گزر نہیں یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اب اس میں کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے
تجھے اپنے حُسن کا واسطہ میرے شوقِ دید پہ رحم کھا
ذرا مسکرا کر نقاب اُٹھا کہ نظر کو شوقِ سلام ہے
نہ سنا تو حور و قصور کی یہ حکایتیں مجھے واعظا
کوئی بات کر درِ یار کی درِ یار ہی سے تو کام ہے
نہ تو اعتکاف سے کچھ غرض نہ ثواب و زہد سے واسطہ
تیری دید ایسی نماز ہے نہ سجود ہے نہ قیام ہے
یہ درست کہ عیب ہے میکشی یہ بجا کہ بادہ حرام ہے
مگر اب سوال یہ آپڑا کہ تمھارے ہاتھ میں جام ہے
جو اٹھی تو صبحِ دوام تھی جو جھکی تو شام ہی شام تھی
تیری چشمِ مست میں ساقیا میری زندگی کا نظام ہے
میرا فرض ہے کہ پڑا رہوں تیری بارگاہ میں ساقیا
کوئی تشنہ لب ہے کہ سیر ہے یہی دیکھنا تیرا کام ہے
ابھی اس جہان میں اے جگر کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے
----------
----
تپتے صحراؤں پہ گرجا سرِ دریا برسا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی اِک بوند
دل میں اک لہر اٹھی آنکھ سے دریا برسا
کوئی غرقاب کوئی ماہیٔ بے آب ہوا
ابر بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا
چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
چند بوندیں ہی سر دامن صحرا برسا
طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا یا برسا
ابر و باراں کے خدا جھومتا بادل نہ سہی
آگ ہی اب سر گلزار تمنا برسا
اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فرازؔ
اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا
----------
عنبرین حسیب عنبر
----
پھر دل یہ کہہ رہا ہے چلو آرزو کریں
کچھ اور ہے نصیب مگر جستجو کریں
محفل سے بھی عزیز وہ تنہائی کیوں نہ ہو
جس میں ہم اپنے آپ سے کچھ گفتگو کریں
اتنی کدورتیں ہیں تو کیونکر ملائیں ہاتھ
جب ربطِ دل نہیں ہے تو کیا گفتگو کریں
ڈر جائیں اپنے آپ سے یہ خود پسند لوگ
خود کو جو آئینے کے کبھی روبرو کریں
اب تارِ مصلحت سے الجھنے لگا ہے دل
عنبر لباس زیست کہاں تک رفو کریں
----------
حسرتؔ موہانی
----
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرا
اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظ
حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبت راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے تیرا بلانا یاد ہے
میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مرا وہ چھیڑنا وہ گدگدانا یاد ہے
باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے
آج تک عہد ہوس کا وہ فسانا یاد ہے
----------
ادا جعفری
----
یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
جلنا تو خیر چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں
تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے
ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں
جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھائوں میں وہ لوگ جلے ہیں
اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں
Tags:
Urdu Poetry


