Read beautiful Urdu and English poetry on love, life, and emotions. Explore heart-touching ghazals, romantic shayari, sad poetry, and famous poets' collections. Discover soulful words daily!
پیار، زندگی اور جذبات پر خوبصورت اردو اور انگریزی شاعری پڑھیں۔ دل کو چھو لینے والی غزلیں، رومانوی شایری، اداس شاعری، اور مشہور شاعروں کے مجموعے دریافت کریں۔ روزانہ روحانی الفاظ دریافت کریں!
Khushi, umeed aur positivity ko promote karne wali Urdu poetry collection with meanings.
(خوشبوؤں کی شاعرہ)
پروینؔ شاکر ¹⁹⁹⁴-¹⁹⁵²
مجموعۂ کلام : (صدِ برگ)
----
موجیں بہم ہُوئیں ، تو کِنارہ نہیں رہا
آنکھوں میں کوئی خُواب دوبارہ نہیں رہا
گھر بچ گیا کہ دور تھے، کُچھ صاعقہ مزاج
کُچھ آسمان کا بھی اِشارہ نہیں رہا
بُھولا ہے کون ایڑ لگا کر حیات کو
رُکنا ہی رخشِ جاں کو گوارا نہیں رہا
جب تک وُہ بے نشان رہا، دسترس میں تھا
خُوش نام ہو گیا ــــــ تو ہمارا نہیں رہا
گم گشتۂ سفر کو جب اپنی خبر مِلی
رَستہ دِکھانے والا سِتارہ نہیں رہا
کیسی گھڑی میں ترکِ سفر کا خیال ہے
جب ہم میں لوٹ آنے کا یارا نہیں رہا
----------
(صوفی غلام مصطفٰی تبسم)
----
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو
کیوں چاہتا ہوں تم کو تبسّم یہ ہے وہ راز
چاہو بھی تم اگر، کبھی افشا نہ کر سکو
----------
احمد عبداللہ
----
مفرور پرندوں کو یہ اعلان گیا ہے
صیاد نشیمن کا پتہ جان گیا ہے
یعنی جسے دیمک لگی جاتی تھی وہ میں تھا
اب آ کے میرا میری طرف دھیان گیا ہے
شیشے میں بھلے اُس نے میری نقل اُتاری
خوش ہوں کہ مجھے کوئی توپہچان گیا ہے
اب بات تیرے کُن پہ ہے کچھ کر میرے مولٰی
اک شخص تیرے در سے پریشان گیا ہے
یہ نام و نصب جا کے زمانے کو بتاؤ
درویش تو دستک سے ہی پہچان گیا ہے
----------
ظفر اقبال
----
یوں بھی ہوتا ھے کہ کوئی یک دم اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ھو دل میں تماشا لگ جائے
ہم سوالات کاحل سوچ رہے ہوں ابھی تک
اور ماتھے پہ محبت کا نتیجہ لگ جائے
ابھی دیوار نہ اٹھائی ھو دل کی طرف
لیکن اس میں کوئی در کوئی دریچہ لگ جائے
کیا ستم ھے کہ وہی دور رہا ہو تم سے
اور اسی شخص پہ الزام تمہارا لگ جائے
پوری آ واز سے اک روز پکاروں تجھ کو
اور پھر میری زبان پر ترا تالہ لگ جائے
اور تو اس کے سوا کچھ نہیں امکاں کہ اب
میرے دریا میں کہیں تیرا کنارہ لگ جائے
----------
----
کسی در پہ جانے کو جی چاہتا ہے
وفا آزمانے کو جی چاہتا ہے
اٹھایا تھا جس بزم سے ہم کو اک دن
وہیں پھر بھی جانے کو جی چاہتا ہے
ہوئے مندمل زخم دل میرے لیکن
نئے زخم کھانے کو جی چاہتا ہے
مآل محبت سمجھتا ہوں پھر بھی
کہیں دل لگانے کو جی چاہتا ہے
ہیں کیسے مزے کے ترے جھوٹے وعدے
کہ پھر دھوکہ کھانے کو جی چاہتا ہے
وہ پھر آج کچھ ہم سے روٹھے ہوئے ہیں
انہیں پھر منانے کو جی چاہتا ہے
ہے مدت سے سونی مرے دل کی محفل
تمہیں سے سجانے کو جی چاہتا ہے
جو روشن ہیں محفل میں عقل و خرد سے
وہ شمعیں بجھانے کو جی چاہتا ہے
جو سوئے ہوئے دل میں ہلچل مچا دے
وہ طوفاں اٹھانے کو جی چاہتا ہے
حبیبؔ آگ بھر دیں جو سینے میں سب کے
وہ نغمے سنانے کو جی چاہتا ہے
----------
سفیر احمد سفیر
----
کسی کی تمہت سے نقصاں ہمارا نہیں ہوتا
چاند گھٹ بھی جائے تو ستارہ نہیں ہوتا
جانے والے سے کہو لوٹ آئے ، خُدا راہ
اُسکی یادوں سے اب گزارا نہیں ہوتا
ہماری آنکھوں کو ہو جاتی ھے تسکین بس
دیکھنے سے کچھ زیاں تمہارا نہیں ہوتا
آندھیوں کو دشمنی ھے کیا مجھ سے آخر
کیوں بجلیوں کو آشیاں گوارہ نہیں ہوتا
آنکھوں میں اُترنے والے ذرا سمنبھل کے اُترنا
عِشق وہ بحر ھے جسکا کنارہ. نہیں ہوتا
خُد ا تھام لیتا ھے اُن بے سہاروں کو
جہاں میں جن کا کوئی سہارا نہیں ھوتا
----------
کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
بدل کر وضع چھپ کر شب کو آنا یاد آتا ہے
وہ باتیں بھولی بھولی اور وہ شوخی ناز و غمزہ کی
وہ ہنس ہنس کر ترا مجھ کو رلانا یاد آتا ہے
گلے میں ڈال کر بانہیں وہ لب سے لب ملا دینا
پھر اپنے ہاتھ سے ساغر پلانا یاد آتا ہے
بدلنا کروٹ اور تکیہ مرے پہلو میں رکھ دینا
وہ سونا آپ اور میرا جگانا یاد آتا ہے
وہ سیدھی الٹی اک اک منہ میں سو سو مجھ کو کہہ جانا
دم بوسہ وہ تیرا روٹھ جانا یاد آتا ہے
تسلی کو دل بیتاب کی میری دم رخصت
نئی قسمیں وہ جھوٹی جھوٹی کھانا یاد آتا ہے
وہ رشک غیر پر رو رو کے ہچکی میری بندھ جانا
فریبوں سے وہ تیرا شک مٹانا یاد آتا ہے
وہ میرا چونک چونک اٹھنا سحر کے غم سے اور تیرا
لگا کر اپنے سینہ سے سلانا یاد آتا ہے
کبھی کچھ کہہ کے وہ مجھ کو رلانا اس ستم گر کا
پھر آنکھیں نیچی کر کے مسکرانا یاد آتا ہے
----------
شاعر: علی حیدر
----
تُمہیں خبر نہیں، یہ دل تمھارے زیرِ اثر ہے،
تیری چاہت کا نشہ بھی روح کے اندر سفر ہے۔
تری نگاہ کی کرن سے دل میں عید آ گئی ہے،
کہ جہاںِ دل میں اب صَبا کا رنگِ نَو سحر ہے۔
تری نظر کا لمس جب سے دل پہ سایہفگن ہے،
مرے وجود کی فضا میں اک عجب سا تر نظر ہے۔
تُو چھوئے گر کبھی تو سانس میں شرر سی جاگے،
یہ بدن دہک اُٹھے، یہ روح مِثلِ شعلہتر ہے۔
میں جو لکھتا ہوں تو نامِ تُو ہی حرف میں گھلے ہے،
مرے خیال کی کِتاب میں ترا ہی نامگر ہے۔
اگر یہ داستاںِ وفا تُو جان لے کبھی بھی،
تو دلِ ناتواں تڑپ کے بےقرار و بےخبر ہے۔
حیدرؔ کے دل نے عشق کو دُعا کا در بنایا،
کہ عشق اُس کی جاں، دُعا، دُعا کا معتبر اثر ہے۔
----------
ہارون شاہدٓ
----
راہ میں لوگ بچھڑتے ہیں کہاں ہوتے ہیں
ان کے قدموں کے نشاں دل پہ عیاں ہوتے ہیں
روشنی بن کے ابھرتے ہیں وہ مانندِ قمر
گھپ اندھیروں میں بھی فانوس نہاں ہوتے ہیں
کچھ ہیں کمزور جو دیتے ہیں دہائی ہر دم
کچھ ہیں شاہین جو با عزم جواں ہوتے ہیں
قافلے والوں کو دھوکے سے لٹا دیتے ہیں
راہرو ایسے بھی راہوں میں یہاں ہوتے ہیں
راہِ حق میں جو کٹا دیتے ہیں سر بھی اپنا
ان کے رتبے بھی ' ارادے بھی جواں ہوتے ہیں
کون کہتا ہے مجھے چاہ کا ارمان نہیں
چاہنے والوں کے انداز عیاں ہوتے ہیں
نہج اور سوچ تری سب سے جدا ہے شاہدٓ
نفسِ مضمون میں طوفان نہاں ہوتے ہیں
----------
پروین شاکر
----
جو پھسلا میرے ہاتھ سے وہ پَل نہیں ملا
میرا گزرا ہوا کل مجھے واپس نہیں ملا
لوگوں سے بھری دنیا میں ڈھونڈا بہت مگر
فرشتے ملے مجھے بہت لیکن انساں نہیں ملا
سوچا کسی کے دل میں اب گھر بنا لوں میں
لیکن کسی کا دل مجھے ثابت نہیں ملا
ایسا نہیں ہے کہ مجھے منزل نہیں ملی
منزل ملی مگر ،،، کبھی راستہ نہیں ملا
برسوں سے میں نے ڈھونڈا لیکن مجھے
اس شہر میں کوئی بھی تیرے جیسا نہیں ملا
----------
محمد ذیشان نصر
----
جدا سب سے ہیں باتوں میں لب و رخسار کی باتیں
رُخِ محبوب کی باتیں ، جمالِ یار کی باتی
گلُ گلزار کے قصے ، .یہ برگ و بار کی باتیں
محبت ، عشق ، الفت اور وفا ، اظہار کی باتیں
درِ معشوق کی باتیں ، دیارِ یار کی باتیں
تخیل سے فزوں تر ہیں مرے افکار کی باتیں
مری آشفتہ حالی پر ستارے رشک کرتے ہیں
مرے اشعار میں پنہاں ، بڑے اسرار کی باتیں
فسانے چھیڑ مت تو غیر کے ہمدم مرے آگے
سنا مجھ کو مرے دلبر ، مرے دلدار کی باتیں
نسیمِ صبح تو تو کوچہ جاناں سے گذری ہے
سنا مجھ کو تو پھر ان کے در و دیوار کی باتیں
جو ہیں اہلِ نظر وہ ہی سمجھتے ہیں حقیقت پھر
وگرنہ جھوٹ لگتی ہیں یہ الفت پیار کی باتیں
تمنا ہے یہی ، مجھ کو ملے پھر وہ مقامِ قرب
کہ ہوں ہر دم مرے لب پر مرے غمخوار کی باتیں
حقیقت میں ہیں پوشیدہ معانی سینکڑوں ان میں
نصرؔ جن کو تو سمجھا ہے محض بیکار کی باتیں
----------
Tags:
Urdu Poetry

